0

مچھلی
ایک مچھلی فروش نے ادیبوں اور شاعروں کے کسی محلہ میں دوکان کھولی اور بورڈ لگا دیا:
‘‘یہاں تازہ مچھلی دستیاب ہے’’۔
ایک ادیب صاحب کا وہاں سے گذر ہوا۔ انہوں نے بورڈ پڑھنے کے بعد مچھلی فروش سے کہا:
میاں اتنا لمبا جملہ لکھنے کی کیا ضرروت تھی، اتنا ہی کافی تھا کہ:
‘‘تازہ مچھلی دستیاب ہے’’۔
مچھلی والے نے لفظ ‘‘یہاں’’ مٹا دیا۔
اس کے بعد ایک اور صاحب آئے۔ انہوں نے بورڈ پر نظر ڈالنے کے بعد فرمایا:
بھئی مچھلی کے ساتھ ‘‘تازہ’’ لکھنے کی کیا تْک بنتی ہے۔ ظاہر ہے ،مچھلی تو تازہ ہی فروخت کی جاتی ہے۔
مچھلی فروش نے لفظ ‘‘تازہ’’ محو کردیا۔ اب تحریر کچھ اس طرح نظر آ رہی تھی:
‘‘مچھلی دستیاب ہے’’۔
پھر ایک اور صاحب آئے انہوں نے عینک سیدھی کرتے ہوئے بورڈ کو پڑھا اور تبصرہ فرمایا:
‘‘مچھلی دستیاب ہے’’ لکھنے کی کیا حاجت پیش آگئی آپ کو؟ مچھلی تو دستیاب ہی ہوتی ہے جبھی تو بکتی ہے۔ بس اتنا ہی کافی تھا: ‘‘مچھلی’’۔ لہٰذا اب بورڈ کچھ یوں دکھائی دے رہا تھا:
‘‘مچھلی’’۔
اس کے بعد ایک بہت بڑے ادیب، بھاری مینڈیٹ کے ساتھ آئے اور انہوں نے تبصرہ فرمایا:
بھئی یہ بورڈ لگانے کا تکلف ہی کیوں کیا آپ نے۔ مچھلی تو چیز ہی ایسی ہے کہ اس کی بو گلی میں داخل ہوتے ہی دور سے محسوس ہوجاتی ہے۔
لہٰذا مچھلی فروش نے وہ بورڈ ہی ہٹا کر سائیڈ پہ رکھ لیا۔
اب ذرا ہنسی روکیں اور آگے پڑھیں۔
ہم نے جب یہ ملک حاصل کیا تو اس کے بورڈ پر بڑا بڑا لکھا تھا:
‘‘لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ’’۔
پھر کچھ مفکرین پیدا ہوئے، انہوں نے رائے دی کہ اتنا تکلف کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ جب یہاں مسلمان رہتے ہیں، شلوار قمیض اور پگڑی پہنتے ہیں، لوگ نماز روزہ کرتے ہیں تو پھر کیا حاجت ہے دنیا سے پنگا لینے کی۔
لہٰذا ہمارے مچھلی فروشوں نے (اب آپ ضمیرفروشوں بھی پڑھ سکتے ہیں) وہ کلمہ ہی غائب کرکے رکھ دیا ہے اور ہم اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ہیں کہیں نظر نہیں آ رہا۔ نہ اقتدار کے ایوانوں میں۔ نہ معیشت کے بازاروں میں، نہ علمی درسگاہوں میں، نہ گلیوں اور محلوں میں۔۔۔۔
پھر منزل سے بھٹک کر بھی محو سفر ہیں اور ایک چھوٹے سے منے سے پالے پالے بچے کی طرح سوال کر رہے ہیں:
پپا! ہم گھل کب پنہچیں گے؟

Post a Comment

 
Top